EN हिंदी
جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے | شیح شیری
jo gul hai yan so us gul-e-ruKHsar sath hai

غزل

جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے

محمد رفیع سودا

;

جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے
کیا گل ہے وہ کہ جس کے یہ گل زار ساتھ ہے

تو مست شب اندھیری اور اغیار ساتھ ہے
جو دل میں آوے کہہ یہ گنہ گار ساتھ ہے

خاموش عندلیب چمن تجھ سے کیا ہے بحث
اپنا سخن تو مرغ گرفتار ساتھ ہے

پیغام اس نگہ کا کہ جس میں ہے بوئے مہر
کیا جانے کس کے آخری دیدار ساتھ ہے

عقدہ نہ یہ کھلا کہ مرے دل سا پہلوان
تجھ زلف کے بندھا ہوا اک تار ساتھ ہے

کرتے تو ہو مرے مرض دل کا تم علاج
یارو جو دل یہی ہے تو آزار ساتھ ہے

سوداؔ کے ہاتھ کیوں کے لگے وہ متاع حسن
لے نکلیں جس کو گھر سے تو بازار ساتھ ہے