جو غزل محلوں سے چل کر جھونپڑوں تک آ گئی
کل سنو گے گاؤں کے چوپال تک پر چھا گئی
کھیت میں جو چگ رہی تھی قید میں گھبرا گئی
گاؤں کی مینا جو آئی شہر میں دبرا گئی
ایسی رانی جس کا جی لگتا نہ تھا ونواس میں
اک محبت کی بدولت اس کو کٹیا بھا گئی
سینک دیتا تھا جو جاڑے میں غریبوں کے بدن
آج اس سورج کو اک دیوار اٹھ کر کھا گئی
کیسی کیسی شخصیت الگاؤ وادی ہو گئی
کیسے کیسے ذہن کو فرقہ پرستی کھا گئی
اس کی ستر کی کمائی اور پچاسی کا ہے خرچ
آدمی اچھا تھا اس کو گھر کی چنتا کھا گئی
ایک پل میں عمر بھر کا ساتھ چھوٹا ہے نذیرؔ
بد گمانی زندگی بھر کی کمائی کھا گئی
غزل
جو غزل محلوں سے چل کر جھونپڑوں تک آ گئی
نذیر بنارسی