EN हिंदी
جو دہائی دے رہا ہے کوئی سودائی نہ ہو | شیح شیری
jo duhai de raha hai koi saudai na ho

غزل

جو دہائی دے رہا ہے کوئی سودائی نہ ہو

امین راحت چغتائی

;

جو دہائی دے رہا ہے کوئی سودائی نہ ہو
اپنے ہی گھر میں کسی نے آگ دہکائی نہ ہو

راستے میں اس سے پہلے کب تھا اتنا اژدحام
جو تماشہ بن رہا ہے وہ تماشائی نہ ہو

جو ملا نظریں چرا کر چل دیا اب کیا کہیں
شہر میں رہ کر کبھی اتنی شناسائی نہ ہو

اپنی ہی آواز پر چونکے ہیں ہم تو بار بار
اے رفیقو بزم میں اتنی بھی تنہائی نہ ہو

میں شعاع مہر کا مارا سہی لیکن یہاں
کون ہے یارو جو اس سورج کا شیدائی نہ ہو

گنگ بھی ہیں دیکھ کر بدلے ہوئے منظر یہاں
اور ایسا بھی نہیں ہم میں کہ گویائی نہ ہو

میں تو اپنی ذات کا اک ریزۂ گم گشتہ ہوں
وہ مجھے ڈھونڈے گا کیا جو میرا شیدائی نہ ہو