EN हिंदी
جو دل بر کی محبت دل سے بدلے | شیح شیری
jo dilbar ki mohabbat dil se badle

غزل

جو دل بر کی محبت دل سے بدلے

غلام مولیٰ قلق

;

جو دل بر کی محبت دل سے بدلے
تو لوں امید لا حاصل سے بدلے

محال عقل کوئی شے نہیں ہے
جو آسانی مری مشکل سے بدلے

جہاں ہے کور اور خورشید محجوب
کہاں تک شمع ہر محفل سے بدلے

تہی دست محبت تو بھی سمجھو
جو جم ساغر کو جام گل سے بدلے

ہر اک کو جان دینے کی خوشی ہو
اجل گر ناوک قاتل سے بدلے

اگر ہو چیں جبیں قاتل دم قتل
قیامت قامت قاتل سے بدلے

ابھی ہم تو عدو سے بھی بدل لیں
جو غم کو غم سے دل کو دل سے بدلے

کھلے احوال دل جب ناصحوں پر
تہہ دریا اگر ساحل سے بدلے

شبستاں چھوڑ کر لیلیٰ ہو مجنوں
مری آغوش گر محمل سے بدلے

نہ جنبش اک قدم ہو آسماں سے
مری منزل اگر منزل سے بدلے

بتوں کا جلوہ کعبے میں دکھا دیں
ذرا تقویٰ دل مائل سے بدلے

قلقؔ اس ظلم کا پھر کیا ٹھکانا
اگر مقتول لے قاتل سے بدلے