جو دل پر بوجھ ہے یا رب ذرا بھی کم نہیں ہوتا
زمانہ غم تو دیتا ہے شریک غم نہیں ہوتا
خزانہ علم کا ہے لا زوال ایسا زمانے میں
جسے بانٹو تو بڑھتا ہے پہ ہرگز کم نہیں ہوتا
ہمارا سر بنا ہے دوستو اک خاص مٹی سے
کسی ظالم کی چوکھٹ پر کبھی یہ خم نہیں ہوتا
زہے قسمت خدا نے ضبط کی طاقت مجھے دی ہے
حقیقت میں مرا اشکوں سے دامن نم نہیں ہوتا
ہزاروں آفتیں ہم نے سہیں محبوب کی خاطر
مگر ایثار کا جذبہ ذرا بھی کم نہیں ہوتا
پہنچ سکتا نہیں وہ اپنی منزل پہ کسی صورت
وہ بد قسمت مسافر جس میں کچھ دم خم نہیں ہوتا
ذرا سی بات پر آمادہ ہو جائے جو لڑنے پر
پجاری وہ اہنسا کا چمن گوتم نہیں ہوتا
غزل
جو دل پر بوجھ ہے یا رب ذرا بھی کم نہیں ہوتا
چمن بھٹناگر