جو دل کو محبت کے مزے آئے ہوئے ہیں
وہ اپنی طبیعت پہ ابھی چھائے ہوئے ہیں
ہر بات پہ اظہار نزاکت ہے حیا سے
ثابت ہے کہ تکلیف بھی کچھ پائے ہوئے ہیں
کچھ تم نے ہمیں دل میں سمجھ رکھا ہے سمجھو
کچھ ہم بھی تمہیں ذہن میں ٹھہرائے ہوئے ہیں
پھر ملنے کو جی چاہتا ہے یار کا ہم سے
ناچار ہیں غصے میں قسم کھائے ہوئے ہیں
اللہ ری ضد کوٹھے کے چڑھنے کو کیا ترک
جس روز سے ہم یار کے ہم سایے ہوئے ہیں
اب دل کو لگاتے ہیں ذرا سوچ سمجھ کر
دو چار جگہ پہلے جو زک پائے ہوئے ہیں
کچھ در پہ جھکائے ہوئے سر بیٹھے ہیں صابرؔ
اس بزم سے شاید کہ نکلوائے ہوئے ہیں

غزل
جو دل کو محبت کے مزے آئے ہوئے ہیں
مرزا قادر بخش صابر دہلوی