EN हिंदी
جو دل کی بارگاہ میں تجلیاں دکھا گیا | شیح شیری
jo dil ki bargah mein tajalliyan dikha gaya

غزل

جو دل کی بارگاہ میں تجلیاں دکھا گیا

صدیقہ شبنم

;

جو دل کی بارگاہ میں تجلیاں دکھا گیا
مرے حواس و ہوش پر سرور بن کے چھا گیا

ترے بغیر زندگی گزارنا محال تھا
مگر یہ قلب ناتواں یہ بوجھ بھی اٹھا گیا

جو شخص میری ذات میں بسا ہوا تھا مدتوں
نہ جانے مجھ سے روٹھ کر وہ اب کہاں چلا گیا

پھر آج اک ہوائے غم اداس دل کو کر گئی
خیال تیری یاد کا نظر کو پھر بجھا گیا

کبھی قدم جو تھک گئے غموں کی رہ گزار میں
تری نظر کا نور تھا جو حوصلے بڑھا گیا