جو دیکھتے ہوئے نقش قدم گئے ہوں گے
پہنچ کے وہ کسی منزل پہ تھم گئے ہوں گے
پلٹ کے دشت سے آئیں گے پھر نہ دیوانے
پکار لو کہ ابھی کچھ قدم گئے ہوں گے
جو ماورائے تصور نہیں کوئی صورت
تو بتکدے ہی تک اہل حرم گئے ہوں گے
ترے جنوں نے پکارا تھا ہوش والوں کو
نہ جانے کون سے عالم میں ہم گئے ہوں گے
ملیں گی منزل آخر کے بعد بھی راہیں
مرے قدم کے بھی آگے قدم گئے ہوں گے
نہ پوچھ حوصلۂ ہم رہان سہل پسند
جہاں تھکن نے کہا ہوگا تھم گئے ہوں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ آئی نظر نہ منزل دوست
وہ لوگ جانب دیر و حرم گئے ہوں گے
کہاں سے آئے دیار شفق میں رنگینی
ادھر سے تیرے شہیدان غم گئے ہوں گے
شمیمؔ ہمت پائے طلب کی بات نہ پوچھ
وہاں گیا ہوں جہاں لوگ کم گئے ہوں گے
غزل
جو دیکھتے ہوئے نقش قدم گئے ہوں گے
شمیم کرہانی