جو چہرہ کی بناوٹ سے یوں زلفوں کو ہٹاتی ہو
ادھر کا پوچھو مت ہم سے ادھر بجلی گراتی ہو
ہمیں کو جان کہتی ہو ہمیں پہ آپ مرتی ہو
اماں چھوڑو یہ ضد اپنی ہمیں کتنا ستاتی ہو
ابھی چھوڑا کہاں تجھ کو ابھی کیا بات بگڑی ہے
کنارے پر کھڑے ہیں ہم کہ تم آنسو بہاتی ہو
ہمیں تو ناز تھا تم پر تمہیں بھی ناز ہونا تھا
جلانا تھا زمانے کو کہ تم ہم کو جلاتی ہو
یہ موسم ہے بازاروں کا کہ رونق کھینچ لاتی ہے
ہماری جیب خالی کر دوالی تم مناتی ہو
تو کل کچھ کہہ رہیں تھی منتظرؔ تم ٹھیک دکھتے ہو
میں پوچھوں بھی بھلا تو کیا بہت باتیں بناتی ہو
غزل
جو چہرہ کی بناوٹ سے یوں زلفوں کو ہٹاتی ہو
منتظر فیروز آبادی