EN हिंदी
جو چلا گیا سو چلا گیا جو ہے پاس اس کا خیال رکھ | شیح شیری
jo chala gaya so chala gaya jo hai pas us ka KHayal rakh

غزل

جو چلا گیا سو چلا گیا جو ہے پاس اس کا خیال رکھ

یاسمین حبیب

;

جو چلا گیا سو چلا گیا جو ہے پاس اس کا خیال رکھ
جو لٹا دیا اسے بھول جا جو بچا ہے اس کو سنبھال رکھ

کبھی سر میں سودا سما کوئی کبھی ریگزار میں رقص کر
کبھی زخم باندھ کے پاؤں میں کہیں سرخ سرخ دھمال رکھ

جو چرائی ہے شب تار سے کئی رتجگوں کو گزار کے
وہی کاجلوں کی لکیر ہے اپنی آنکھ میں ڈال ڈال رکھ

کسی تارہ تارہ فراق سے کوئی گفتگو کوئی بات کر
یہ جواب گاہ شعور ہے کوئی اپنے پاس سوال رکھ

ترے درد سارے گراں بہا تری وحشتیں ہیں عظیم تر
وہی بال کھول کے بین کر وہی شام صحن ملال رکھ

جہاں لغزشوں سے مفر نہیں یہ وہ آگہی کا مقام ہے
یہاں ہست و بود کو بھول جا نئی قربتوں سے وصال رکھ

یہ جو روشنی کا ہے دائرہ یہ رہین شمس و قمر نہیں
ترے بس میں کب تھا کہ اب رہے تو عروج رکھ یا زوال رکھ