EN हिंदी
جو چاہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں | شیح شیری
jo chahun bhi to ab KHud ko badal sakta nahin hun

غزل

جو چاہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں

اسلام عظمی

;

جو چاہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں
سمندر ہوں کناروں سے نکل سکتا نہیں ہوں

میں یخ بستہ فضاؤں میں اسیر زندگی ہوں
تری سانسوں کی گرمی سے پگھل سکتا نہیں ہوں

مرے پاؤں کے نیچے جو زمیں ہے گھومتی ہے
تو یوں اے آسماں میں بھی سنبھل سکتا نہیں ہوں

خود اپنے دشمنوں کے ساتھ سمجھوتا ہے ممکن
میں تیرے دشمنوں کے ساتھ چل سکتا نہیں ہوں

وہ پودا نفرتوں کا ہے جہاں چاہے اگا لو
محبت ہوں میں ہر مٹی میں پھل سکتا نہیں ہوں

انہیں لڑنا پڑے گا مجھ سے جب تک ہوں میں زندہ
حصار دشمناں سے گو نکل سکتا نہیں ہوں

کھلے ہیں راستے کتنے مرے رستے میں عظمیؔ
مگر میں ہوں کہ ہر سانچے میں ڈھل سکتا نہیں ہوں