جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو
تو اپنا ذہن بھی اس کے لیے کشادہ ہو
وہ یاد آئے تو اپنا وجود ہی نہ ملے
نہ یاد آئے تو مجھ کو تھکن زیادہ ہو
پہاڑ کاٹ دوں سورج کو ہاتھ پر رکھ لوں
ذرا خیال میں شامل اگر ارادہ ہو
سمجھ سکو جو زمانے کے تم نشیب و فراز
تو اپنے عہد کے بچوں سے استفادہ ہو
یہ سوچتا ہوں وہ جس دم مری تلاش کرے
حقیقتوں کا مرے جسم پر لبادہ ہو
ہے جستجو مجھے اک ایسے شخص کی یارو
جو خوش مزاج بھی ہو اور دل کا سادہ ہو
غزل
جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو
شمس تبریزی