EN हिंदी
جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو | شیح شیری
jo chahte ho ki manzil tumhaari jada ho

غزل

جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو

شمس تبریزی

;

جو چاہتے ہو کہ منزل تمہاری جادہ ہو
تو اپنا ذہن بھی اس کے لیے کشادہ ہو

وہ یاد آئے تو اپنا وجود ہی نہ ملے
نہ یاد آئے تو مجھ کو تھکن زیادہ ہو

پہاڑ کاٹ دوں سورج کو ہاتھ پر رکھ لوں
ذرا خیال میں شامل اگر ارادہ ہو

سمجھ سکو جو زمانے کے تم نشیب و فراز
تو اپنے عہد کے بچوں سے استفادہ ہو

یہ سوچتا ہوں وہ جس دم مری تلاش کرے
حقیقتوں کا مرے جسم پر لبادہ ہو

ہے جستجو مجھے اک ایسے شخص کی یارو
جو خوش مزاج بھی ہو اور دل کا سادہ ہو