EN हिंदी
جو بجھ سکے نہ کبھی دل میں ہے وہ آگ بھری | شیح شیری
jo bujh sake na kabhi dil mein hai wo aag bhari

غزل

جو بجھ سکے نہ کبھی دل میں ہے وہ آگ بھری

شارق ایرایانی

;

جو بجھ سکے نہ کبھی دل میں ہے وہ آگ بھری
بلائے جاں ہے محبت میں فطرت بشری

قفس میں ہم نے ہزاروں اسیر دیکھے ہیں
رہا ہے کس کا سلامت غرور بال و پری

ترے جمال کے اسرار کون سمجھے گا
پناہ مانگ رہا ہے شعور دیدہ دری

سفر عدم کا ہے دشوار تو اکیلا ہے
مجھے بھی ساتھ لیے چل ستارۂ سحری

بنا بنا کے ہر اک شیشہ توڑ دیتا ہے
عجیب شے ہے مرے شیشہ گر کی شیشہ گری

تباہیوں کا زمانہ ہے ہوشیار رہو
خبر کے رنگ میں ظاہر ہوئی ہے بے خبری

جنوں کا مژدۂ فرصت کہ ان دنوں شارقؔ
خرد کا دست مبارک ہے وقف جامہ دری