جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے
جانے یوں ہے بھی کہ ایسا نظر آتا ہے مجھے
چشم وا میں تو وہی منظر خالی ہے جو تھا
موند لوں آنکھ تو کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
مائل عرض تمنا ہے نہ ہے وقف ملال
اے مرے دل تو ٹھہرتا نظر آتا ہے مجھے
پس نظارہ کوئی خواب گریزاں ہی نہ ہو
دیکھنے میں تو تماشا نظر آتا ہے مجھے
باندھ لوں رخت سفر لوٹ چلوں گھر کی طرف
تری جانب سے اشارہ نظر آتا ہے مجھے
تجھے کیونکر ہو یہ معلوم مرے ماہ تمام
داغ دل کیسے ستارہ نظر آتا ہے مجھے
کشتیٔ جاں یہی اک آدھ بھنور اور ہے بس
کہیں نزدیک کنارہ نظر آتا ہے مجھے
دیکھنے دیکھنے میں فرق ہوا کرتا ہے
تمہی بتلاؤ کہ کیسا نظر آتا ہے مجھے
غزل
جو بھی یکجا ہے بکھرتا نظر آتا ہے مجھے
ابرار احمد