جو بھی ہم سے بن پڑا کرتے رہے
رت بدلنے کی دعا کرتے رہے
کیسی کیسی چاہتوں کے تھے چراغ
جن کو ہم برد ہوا کرتے رہے
ٹانک کر خوش رنگ امیدوں کے پھول
خشک ٹہنی کو ہرا کرتے رہے
رنگ خوشبو سے الگ ہوتے نہ تھے
لفظ معنی سے جدا کرتے رہے
جانتے تھے چاپلوسی کا ہنر
کام پھر بھی دوسرا کرتے رہے
خوف نگری کے مکیں تھے ہم شفیقؔ
پھر بھی جذبوں کو صدا کرتے رہے

غزل
جو بھی ہم سے بن پڑا کرتے رہے
شفیق سلیمی