EN हिंदी
جو بہت بے رخی سے ملتا ہے | شیح شیری
jo bahut be-ruKHi se milta hai

غزل

جو بہت بے رخی سے ملتا ہے

کامران عادل

;

جو بہت بے رخی سے ملتا ہے
کیا کریں دل اسی سے ملتا ہے

صرف مطلب کے واسطے اب تو
آدمی آدمی سے ملتا ہے

وہ لکھا ہے کہاں کتابوں میں
جو سبق زندگی سے ملتا ہے

مرتبہ آج بھی زمانے میں
پیار سے عاجزی سے ملتا ہے

اس کا درماں نہیں کوئی عادلؔ
درد جو دوستی سے ملتا ہے