جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی
سنا رہا ہے فسانے فریب گویائی
نئے چراغ سر رہ گزر جلا آئی
ہوائے نکہت گل تھی کہ میری بینائی
تو گرم رات میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا
ذرا قریب سے گزرا تو نیند سی آئی
جو بات تجھ میں ہے وہ دوسروں میں کیا ملتی
جو بات مجھ میں ہے تو نے بھی وہ کہاں پائی
وہ یاد آئے تو دل اور ہو گیا ویراں
وہ مل گئے تو بڑھا اور درد تنہائی
بہت دنوں سے مرا دل اداس بھی تو نہیں
بہت دنوں سے تری یاد بھی نہیں آئی
سلیمؔ قرب سے بھی تشنگی نہیں جاتی
یہ بات ساحل و دریا نے مجھ کو سمجھائی

غزل
جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی
سلیم احمد