جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے
چراغ وہ جو بگولوں کی چمنیوں میں جلے
وہ لوگ تھے جو فریب نظر کے متوالے
تمام عمر سرابوں کے پانیوں میں جلے
کچھ اس طرح سے لگی آگ بادبانوں کو
کہ ڈوبنے کو بھی ترسے جو کشتیوں میں جلے
یہی ہے فیصلہ تیرا کہ جو تجھے چاہے
وہ درد و کرب و الم کی کٹھالیوں میں جلے
دم فراق یہ مانا وہ مسکرایا تھا
مگر وہ دیپ کہ چپکے سے انکھڑیوں میں جلے
وہ جھیل جھیل میں جھرمٹ نہ تھے ستاروں کے
چراغ تھے کہ جو چاندی کی تھالیوں میں جلے
دھواں دھواں ہے درختوں کی داستاں انورؔ
کہ جنگلوں میں پلے اور بستیوں میں جلے
غزل
جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے
انور مسعود