جو بظاہر سحر آثار نظر آتے ہیں
وہ بھی اندر سے شب تار نظر آتے ہیں
کیجیے کس سے یہاں قدر ہنر کی امید
اب وہ دربار نہ در بار نظر آتے ہیں
کم سے کم اپنے گریباں ہی کے پرزے کرتے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے یار نظر آتے ہیں
شہر در شہر مکانوں میں اندھیرا ہے مگر
جگمگاتے ہوئے بازار نظر آتے ہیں
کون آواز اٹھائے گا ہمارے حق میں
سب ترے حاشیہ بردار نظر آتے ہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اڑ جائیں تو لوٹیں نہ کبھی
جتنے بچے ہیں وہ پر دار نظر آتے ہیں
کتنی دل کش ہے یہ امید کی رنگ آمیزی
سنگ دل لوگ بھی دل دار نظر آتے ہیں
وہ رہے ہوں گے نزاکت میں کبھی شاخ گلاب
اب تو جب دیکھیے تلوار نظر آتے ہیں
کس کی آمد ہے غریبوں کے گلی کوچے میں
اجلے اجلے در و دیوار نظر آتے ہیں
جن کے دیدار کو فردوس تماشا کہئے
زندگی میں کہیں اک بار نظر آتے ہیں
شوخیٔ نقش قدم ہے کہ گلابوں کی قطار
راستے سب گل و گلزار نظر آتے ہیں
جو ہر اک بند سے آزاد ہیں وہ بھی ماہرؔ
اپنی خصلت کے گرفتار نظر آتے ہیں

غزل
جو بظاہر سحر آثار نظر آتے ہیں
ماہر عبدالحی