EN हिंदी
جو اشک برسا رہے ہیں صاحب | شیح شیری
jo ashk barsa rahe hain sahib

غزل

جو اشک برسا رہے ہیں صاحب

اجمل سراج

;

جو اشک برسا رہے ہیں صاحب
یہ رائیگاں جا رہے ہیں صاحب

یہی تغیر تو زندگی ہے
عبث گھلے جا رہے ہیں صاحب

جو ہو گیا ہے سو ہو گیا ہے
فضول پچھتا رہے ہیں صاحب

یہ صرف گنتی کے چار دن ہیں
بڑے مزے آ رہے ہیں صاحب

ابھی تو یہ خاک ہو رہے گا
جو جسم چمکا رہے ہیں صاحب

کوئی ارادہ نہ کوئی جادہ
کہاں کدھر جا رہے ہیں صاحب

ادھر ذرا غور سے تو دیکھیں
یہ پھول مرجھا رہے ہیں صاحب

جہاں کی نایافت کے سبب میں
جہاں کا غم کھا رہے ہیں صاحب

یہ میں نہیں ہوں یہ میرا دل ہے
یہ کس کو سمجھا رہے ہیں صاحب

سکون کی نیند سوئیے گا
وہ دن بھی بس آ رہے ہیں صاحب

جو آپ کے ہجر میں ملے ہیں
یہ دن گنے جا رہے ہیں صاحب

بس اب نہیں کچھ بھی یاد مجھ کو
بس آپ یاد آ رہے ہیں صاحب