EN हिंदी
جو عام سا اک سوال پوچھا تو کیا کہیں گے | شیح شیری
jo aam sa ek sawal puchha to kya kahenge

غزل

جو عام سا اک سوال پوچھا تو کیا کہیں گے

کبیر اطہر

;

جو عام سا اک سوال پوچھا تو کیا کہیں گے
کسی نے ہم سے بھی حال پوچھا تو کیا کہیں گے

جو سر کے بل خاک میں گڑے ہیں کسی نے ان سے
بلندیوں کا مآل پوچھا تو کیا کہیں گے

زمانے بھر کو تو ہم نے خاموش کر دیا ہے
جو دل نے بھی اک سوال پوچھا تو کیا کہیں گے

جنہیں ہمارے لہو کی لت ہے کسی نے ان سے
خمار رزق حلال پوچھا تو کیا کہیں گے

جسے غزل میں برت کے ہم داد پا چکے ہیں
کسی نے اس دکھ کا حال پوچھا تو کیا کہیں گے

اگر ہم اس کی خوشی میں خوش ہیں تو دوستوں نے
جواز حزن و ملال پوچھا تو کیا کہیں گے

یہ ہم جو اوروں کے دکھ کا ٹھیکا لیے ہوئے ہیں
کسی نے اس کا مآل پوچھا تو کیا کہیں گے

جو اپنی جانیں بچا کے خوش ہیں کبیرؔ ان سے
کسی نے بستی کا حال پوچھا تو کیا کہیں گے