جیے جائیں گے ہم بھی لب پہ دم جب تک نہیں آتا
ہمیں بھی دیکھنا ہے نامہ بر کب تک نہیں آتا
پہنچنا تھا جو عرض حال کو عرش معظم تک
کئی شب سے وہی نالہ مرے لب تک نہیں آتا
دل اپنا وادئ غربت میں شاید مر رہا جا کر
نہ آنے کی بھی اک میعاد ہے کب تک نہیں آتا
وہاں اوروں کے قصوں کو بھی سن کر وہ کھٹکتے ہیں
یہاں اپنی زباں پر حرف مطلب تک نہیں آتا
یہاں تک سینہ تنگی سے ضعیف و زار ہے نالہ
چلا جو صبح کو وہ تا بہ لب شب تک نہیں آتا
جہاں تمہید کی وہ اور قصے چھیڑ دیتا ہے
کسی صورت سے ظالم حرف مطلب تک نہیں آتا
بلا بھیجیں نہ جب تک شادؔ کو وہ اپنے کوچے میں
اجارہ ہے ترا اے شوق ہاں تب تک نہیں آتا
غزل
جیے جائیں گے ہم بھی لب پہ دم جب تک نہیں آتا
شاد عظیم آبادی