جیا بہ کام کب اس بخت ارجمند سے میں
پھنسا قفس میں جو چھوٹا چمن کے بند سے میں
ہے گو کہ جذب مرا تار عنکبوت سے سست
یہ شیر پھانسے ہیں اکثر اسی کمند سے میں
کبھو دے بزم میں اپنی مجھے بھی رخصت سوز
گیا اثر میں مری جان کیا سپند سے میں
جو تلخئیں کہ ذخیرہ میں کی ہیں غم میں ترے
نہ ان سے ایک کو بدلوں ہزار قند سے میں
بتان دہر سے قائمؔ کیا میں کس کو پسند
ہوں اب ہمیشہ ندامت میں جس پسند سے میں
غزل
جیا بہ کام کب اس بخت ارجمند سے میں
قائم چاندپوری