جتنے نغمے تھے وجہ خلش بن گئے جتنے نالے تھے صرف ہوا ہو گئے
ہم وہی ہیں جو کل تھے مگر کیا ہوا ہم وہیں ہیں مگر کیا سے کیا ہو گئے
جن کے دامن تہی اور خالی تھے دل جن کی جرأت تھی کم اور جاں مضمحل
آستانوں پہ سجدے وہ کرتے رہے رفتہ رفتہ ہمارے خدا ہو گئے
اس زمانے کے جو میر و سلطان تھے نوع آدم میں یعنی جو انسان تھے
دل سے پائی انہوں نے وہ نشوونما تیرے کوچے کے آخر گدا ہو گئے
شور سینوں میں اٹھ اٹھ کے دبتے رہے دل جگر دور گردوں میں کھپتے رہے
ہاتھ کتنے تھے یاں جو قلم ہو گئے ساز کیا کیا تھے جو بے صدا ہو گئے
یار دنیا کے سانچے میں ڈھلتے رہے شمع فانوس تھے ہم پگھلتے رہے
اپنی تنہا روی اپنا سوز دروں ہم بھی دنیا میں اک ماجرا ہو گئے
اب نہ خطرہ ہے دل میں نہ کوئی خلش ایک باقی رہا ہے تو رنگ تپش
دل سبک اور سادہ ہے اس طور سے قرض جتنے تھے گویا ادا ہو گئے
غم سنورتے رہے ہم سنبھلتے رہے شوق منزل کے شیوے بدلتے رہے
تھے جو نزدیک ہم سے وہ اب دور ہیں تھے جو نا آشنا آشنا ہو گئے
غزل
جتنے نغمے تھے وجہ خلش بن گئے جتنے نالے تھے صرف ہوا ہو گئے
خورشید الاسلام

