جتنا تہذیب بدن سے میں سنورتا جاؤں
اتنا ہی ٹوٹ کے اندر سے بکھرتا جاؤں
زندگی جیسے کلنڈر پہ بدلتی تاریخ
میں شب و روز کے مانند گزرتا جاؤں
کیا پتا خوابوں کی تعبیر ملے یا نہ ملے
کسی کاغذ پہ انہیں نوٹ ہی کرتا جاؤں
صحن گلشن سے وہ اک آخری رشتہ بھی گیا
خشک پتوں کی طرح اب تو بکھرتا جاؤں
تہ ظلمات ان آنکھوں کے دیے جلتے جائیں
زینہ زینہ میں اجالوں میں اترتا جاؤں
گرد دامن کی طرح مجھ کو اڑانے والے
عکس بن کر تری آنکھوں میں ٹھہرتا جاؤں
کتنے گھبرائے ہوئے ہیں مرے قاتل محسنؔ
آستینوں پہ لہو بن کے ابھرتا جاؤں

غزل
جتنا تہذیب بدن سے میں سنورتا جاؤں
محسن زیدی