جتنا پاتا ہوں گنوا دیتا ہوں
پھر اسی در پہ صدا دیتا ہوں
ختم ہوتا نہیں پھولوں کا سفر
روز اک شاخ ہلا دیتا ہوں
ہوش میں یاد نہیں رہتے ہیں خط
بے خیالی میں جلا دیتا ہوں
سب سے لڑ لیتا ہوں اندر اندر
جس کو جی چاہے ہرا دیتا ہوں
کچھ نیا باقی نہیں ہے مجھ میں
خود کو سمجھا کے سلا دیتا ہوں

غزل
جتنا پاتا ہوں گنوا دیتا ہوں
رؤف رضا