EN हिंदी
جتنا دکھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ نہ سمجھ | شیح شیری
jitna dikhta hun mujhe us se ziyaada na samajh

غزل

جتنا دکھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ نہ سمجھ

دوجیندر دوج

;

جتنا دکھتا ہوں مجھے اس سے زیادہ نہ سمجھ
اس زمیں کا ہوں مجھے کوئی فرشتہ نہ سمجھ

یہ تری آنکھ کے دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک بہتے ہوئے دریا کو کنارا نہ سمجھ

چھوڑ جائے گا ترا ساتھ اندھیرے میں یہی
یہ جو سایہ ہے ترا اس کو بھی اپنا نہ سمجھ

جن کتابوں نے اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا
ان کتابوں کے اجالوں کو اجالا نہ سمجھ

یہ جو بپھرا تو ڈبوئے گا سفینے کتنے
تو اسے آنکھ سے ٹپکا ہوا قطرہ نہ سمجھ

وہ تجھے بانٹنے آیا ہے کئی ٹکڑوں میں
مسکراتے ہوئے شیطاں کو مسیحا نہ سمجھ

تجھ سے ہی مانگ رہا ہے وہ تو خود اپنا وجود
خود جو سائل ہے اسے کوئی خلیفہ نہ سمجھ

ہے ترے ساتھ اگر تیرے ارادوں کا جنون
قافلہ ہے تو کبھی خود کو اکیلا نہ سمجھ

ساتھ ہیں میرے بزرگوں کی دعائیں اتنی
میں ہوں محفل تو مجھے پل کو بھی تنہا نہ سمجھ