جسموں کی محراب میں رہنا پڑتا ہے
ایک مسلسل خواب میں رہنا پڑتا ہے
اپنی گہرائی بھی ناپ نہیں سکتے
اور ہمیں پایاب میں رہنا پڑتا ہے
روحوں پر مل کر دنیا کے سناٹے
آوازوں کے باب میں رہنا پڑتا ہے
امڈا رہتا ہے جو تیری آنکھوں میں
ایسے بھی سیلاب میں رہنا پڑتا ہے
انگڑائی لیتے ہیں مجھ میں سات فلک
آفاقی گرداب میں رہنا پڑتا ہے
جنم نکل جاتے ہیں خود سے ملنے میں
ایک سفر نایاب میں رہنا پڑتا ہے

غزل
جسموں کی محراب میں رہنا پڑتا ہے
ریاض لطیف