EN हिंदी
جسموں کی چڑھتی دھوپ کا جب قہر اتر گیا | شیح شیری
jismon ki chaDhti dhup ka jab qahr utar gaya

غزل

جسموں کی چڑھتی دھوپ کا جب قہر اتر گیا

مصور سبزواری

;

جسموں کی چڑھتی دھوپ کا جب قہر اتر گیا
اک شعلہ ڈوبنے کو سر نہر اتر گیا

پھر یاد آ گئی ہے ترے آنسوؤں کی شام
پھر آج زیر آب کوئی شہر اتر گیا

اب ڈس رہا ہے مجھ کو مرا کھوکھلا بدن
ساون کی بجلیوں سے مرا زہر اتر گیا

ہم موج تہ نشیں تھے تجھے چھو نہیں سکے
تو برگ سطح آب تھا ہر لہر اتر گیا

اب روکش جمال مصورؔ نہیں کوئی
چہرہ بہ چہرہ عکس رخ دہر اتر گیا