جسم اس کے غم میں زرد از ناتوانی ہو گیا
جامۂ عریانی اپنا زعفرانی ہو گیا
بے تکلف ہو جو بیٹھا کھول چھاتی کے کواڑ
آئینہ ہو منفعل دیکھ اس کو پانی ہو گیا
کیا ہوا بہکائے سے تیرے بھلا اب اے رقیب
آخرش اس نے ہماری بات مانی ہو گیا
جاگ اے غافل کہ پیری کی ہوئی تیری سحر
کٹ گئی غفلت کی شب عہد جوانی ہو گیا
غزل
جسم اس کے غم میں زرد از ناتوانی ہو گیا
شاہ نصیر