EN हिंदी
جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا | شیح شیری
jism ki sath pe tufan kiya jaega

غزل

جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا

سالم سلیم

;

جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا
اپنے ہونے کا پھر اعلان کیا جائے گا

ہم رہیں گے ابھی اس آئنہ خانے میں اسیر
ابھی کچھ دن ہمیں حیران کیا جائے گا

سامنے سے کوئی بجلی سی گزر جائے گی
میرے اندر کوئی ہیجان کیا جائے گا

منزل خاک پہ جانا ہے اسی شرط کے ساتھ
یہ سفر بے سر و سامان کیا جائے گا

آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے
آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا