جسم کے خول سے نکلوں تو قضا کو دیکھوں
بت کو رستے سے ہٹاؤں تو خدا کو دیکھوں
ایسا کیا جرم ہوا ہے کہ تڑپتے مرتے
اپنے احساس کی سولی پہ انا کو دیکھوں
بولتی آنکھ کا رس ہنستے ہوئے لفظ کا روپ
بات نظروں کی سنوں یا کہ صدا کو دیکھوں
ان کی قسمت کہ کھلیں روز تمنا کے گلاب
میری تقدیر کہ زخموں کی چتا کو دیکھوں
اس توقع پہ کہ شاید کوئی درویش ملے
غور سے شہر کے ایک ایک گدا کو دیکھوں
مجھ کو تہذیب کے مکتب نے سکھایا ہے یہی
تختیٔ دل نہ پڑھوں رنگ قبا کو دیکھوں
غزل
جسم کے خول سے نکلوں تو قضا کو دیکھوں
جلیل عالیؔ