جسم بے سر کوئی بسمل کوئی فریادی تھا
حشر سامانیاں تھیں منزل جاناں کے قریب
ضو فشاں شمس تھا پر اس کو خجل ہونا پڑا
ان کا حسن آ گیا جب مہر درخشاں کے قریب
اشک بن بن کے جو چمکا تھا افق پر برسوں
وہ ستارا نظر آیا ترے مژگاں کے قریب
طائر روح نے پرواز کی دیکھ اے صیاد
تو گیا لے کے قفس جب در زنداں کے قریب
میں تو سمجھا تھا نشیمن بھی جلا خیر ہوئی
برق جب کوند کے آئی تھی گلستاں کے قریب
آتش عشق بجھائے نہ بجھی تا بہ لحد
بھڑکی دامن سے تو پہنچی یہ گریباں کے قریب
بوئے گل دوڑ کے صدقے ہوئی گیسو پہ ظہیرؔ
آپ آئے جو کسی دن چمنستاں کے قریب
غزل
جسم بے سر کوئی بسمل کوئی فریادی تھا (ردیف .. ب)
سید ظہیر الدین ظہیر