EN हिंदी
جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا | شیح شیری
jism apna hai koi aur na saya apna

غزل

جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا

مصور سبزواری

;

جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا
جانے اس زیست سے ہے کون سا رشتہ اپنا

تو نے کس موڑ پہ چھوڑا تھا مجھے عمر رواں
تک رہا ہوں کئی صدیوں سے میں رستہ اپنا

سنگ‌ انداز ہوا شہر ستم پیشہ تمام
دل لیے بیٹھا ہے شیشے کا گھروندا اپنا

ہم رہے بھی تو بدلتے ہوئے موسم کی طرح
تیری آنکھوں میں کوئی عکس نہ ٹھہرا اپنا

جوگ لے کر تری خاطر لیے گلیوں گلیوں
اک مغنی کی طرح درد بھی بیچا اپنا

ایک بے نام تعلق بھی اب اس گھر سے نہیں
مدتوں جس میں رہا تھا کبھی چرچا اپنا

اک ترا غم تھا بہ ہر رنگ جو شاداب رہا
اس شجر نے نہ گرایا کوئی پتا اپنا

دل کی دیواروں پہ یہ رنگ شب تار تو دیکھ
حادثہ چھوڑ گیا ہے کوئی سایہ اپنا

اے غم خاک‌‌ شدہ جاگ برنگ‌‌ اشعار
تیری مٹی میں ملاتا ہوں میں سونا اپنا

کتنے اصنام تراشے ہیں تری صورت کے
جھانک کر دیکھے ذرا مجھ میں سراپا اپنا