جسے اڑان کے بدلے تھکان دیتا ہے
خدا اسے بھی تو اونچی اڑان دیتا ہے
اسی کے حصے میں آتی ہے منزل مقصود
جو ہر قدم پہ یہاں امتحان دیتا ہے
عجیب بات ہے اس پہ ستم کہ بارش ہے
جو چاہتا ہے تمہیں تم پہ جان دیتا ہے
دہک رہی ہے یہی آگ میرے سینے میں
قسم وہ کھا کے بھی جھوٹا بیان دیتا ہے
مزار حسن سے آتی ہے یہ صدا راہیؔ
وفا پہ دیکھیے اب کون جان دیتا ہے
غزل
جسے اڑان کے بدلے تھکان دیتا ہے
راشد راہی