جسے کل رات بھر پوجا گیا تھا
وہ بت کیوں صبح کو ٹوٹا ہوا تھا
اگر سچ کی حقیقت اب کھلی ہے
تو جو اب تک نظر آیا تھا کیا تھا
اگر یہ تلخیوں کی ابتدا ہے
تو اب تک کون سا امرت پیا تھا
کھلا ہے مجھ پہ اب دنیا کا مطلب
مگر یہ راز پہلے بھی کھلا تھا
میں جس میں ہوں یہ دنیا مختلف ہے
جہاں میں تھا وہ عالم دوسرا تھا
میں خود کو مار کر پہنچا یہاں تک
تو یاد آیا کہ میں تو مر چکا تھا
مری میں اور تری میں دونوں ہاریں
میں بندہ ہوں مگر تو تو خدا تھا
میں اب جو منہ چھپائے پھر رہا ہوں
تو کیا میں واقعی چہرہ نما تھا
غزل
جسے کل رات بھر پوجا گیا تھا
فیصل عظیم