EN हिंदी
جس تیقن سے جو لکھنا تھا نہیں لکھا گیا | شیح شیری
jis tayaqqun se jo likhna tha nahin likkha gaya

غزل

جس تیقن سے جو لکھنا تھا نہیں لکھا گیا

محمود اظہر

;

جس تیقن سے جو لکھنا تھا نہیں لکھا گیا
آسماں کاٹ کے مٹی پہ زمیں لکھا گیا

میری پیشانی دمکتی ہے ستاروں سے سوا
تیرے ہاتھوں سے جہاں حرف یقیں لکھا گیا

موج در موج سمندر سے ملاقات ہوئی
خواب کو خواب سر سطح زمیں لکھا گیا

عکس در عکس جو لکھنا تھا مجھے اس کا جمال
آئنہ خانۂ حیرت کے تئیں لکھا گیا

دیکھ کر اس کو مرے ہوش ٹھکانے نہ رہے
اسم لکھنا تھا کہیں اور کہیں لکھا گیا

ہاں اٹھایا تھا قلم کربلا والوں کے لیے
لکھنا چاہا تھا مگر مجھ سے نہیں لکھا گیا

دونوں سرمست ہیں احساس سخن سازی میں
روشنی آنکھ کو اور دل کو حزیں لکھا گیا

یوں تو صفحات سیہ کرتا رہا میں اظہرؔ
چاہتا تھا جو مرا شوق نہیں لکھا گیا