جس طرح دھوپ کا رنگت پہ اثر پڑتا ہے
نفس کا ویسے عبادت پہ اثر پڑتا ہے
ایسے مجھ پر بھی ترے غم کے نشاں دکھتے ہیں
جیسے موسم کا عمارت پہ اثر پڑتا ہے
صرف ماحول سے فکریں نہیں بدلا کرتیں
دوستوں کا بھی طبیعت پہ اثر پڑتا ہے
دشمنوں سے ہی نہیں ہوتا ہے خطرہ لاحق
باغیوں سے بھی حکومت پہ اثر پڑتا ہے
اب سمجھ آیا سبب مجھ کو مری پستی کا
مانگ گھٹتی ہے تو قیمت پہ اثر پڑتا ہے
بھوک نیکی کی لگے یا کہ لگے دنیا کی
بھوک لگتی ہے تو صورت پہ اثر پڑتا ہے
رزق رکتا ہے نمازوں کے قضا کرنے سے
نیتیں بد ہوں تو برکت پہ اثر پڑتا ہے
صاف دکھتی ہے بڑھاپے میں قضا سچ تو ہے
عمر کے ساتھ بصیرت پہ اثر پڑتا ہے
پاس رہنے سے ہی بڑھتی نہیں چاہت محسنؔ
فاصلوں سے بھی محبت پہ اثر پڑتا ہے
غزل
جس طرح دھوپ کا رنگت پہ اثر پڑتا ہے
محسن آفتاب کیلاپوری