جس طرح بدلا ہوں میں بدلے گی کیا
میری بستی مجھ کو پہچانے گی کیا
زخم سر ہے آپ اپنی داستان
پتھروں سے زندگی پوچھے گی کیا
تیرگی نے مسخ کر دیں صورتیں
آنے والی روشنی دیکھے گی کیا
ذہن میں رکنے نہیں پاتے خیال
جسم کے اوپر قبا ٹھہرے گی کیا
میں تو جاں دیتے ہوئے بھی ہنس پڑوں
تلخی زہراب غم سوچے گی کیا
دھوپ ایسی ہے کہ دریا سوکھ جائیں
خون کے چھینٹوں سے رت بدلے گی کیا
جی رہا ہوں دوسروں کے جسم میں
موت جینے سے مجھے روکے گی کیا
غزل
جس طرح بدلا ہوں میں بدلے گی کیا
منظر سلیم