جس طرف جاؤں ادھر عالم تنہائی ہے
جتنا چاہا تھا تجھے اتنی سزا پائی ہے
میں جسے دیکھنا چاہوں وہ نظر نہ آ سکے
ہائے ان آنکھوں پہ کیوں تہمت بینائی ہے
بارہا سرکشی و کج کلہی کے با وصف
تیرے در پر مجھے دریوزہ گری لائی ہے
صدمۂ ہجر میں تو بھی ہے برابر کا شریک
یہ الگ بات تجھے تاب شکیبائی ہے
بھولنے والے نے شاید یہ نہ سوچا ہوگا
ایک دو دن نہیں برسوں کی شناسائی ہے
جام خوش رنگ تہی ہے مجھے معلوم نہ تھا
اپنی ٹوٹی ہوئی توبہ پہ ہنسی آئی ہے
یہ توجہ بھی تری حسن گریزاں کی طرح
یہ تغافل بھی مری حوصلہ افزائی ہے
تیرا لہجہ ہے کہ سناٹے نے آنکھیں کھولیں
تیری آواز کلید در تنہائی ہے
شاذؔ پوچھو کہ یہ آنکھوں کا دھندلکا کب تک
رات آئی نہیں یا نیند نہیں آئی ہے

غزل
جس طرف جاؤں ادھر عالم تنہائی ہے
شاذ تمکنت