EN हिंदी
جس طرف بھی دیکھیے سایہ نہیں | شیح شیری
jis taraf bhi dekhiye saya nahin

غزل

جس طرف بھی دیکھیے سایہ نہیں

گہر خیرآبادی

;

جس طرف بھی دیکھیے سایہ نہیں
پھر بھی گلشن ہے کوئی صحرا نہیں

لوگ بیٹھے ہیں اسی کی چھاؤں میں
سائے سے جس پیڑ کا رشتہ نہیں

کام اگر آئے نگاہ حق شناس
پھر کسی پہلو کوئی دھوکا نہیں

حق پسند میرا دستور عمل
یعنی بک جانا مرا شیوہ نہیں

دوستو رکھو حقیقت پر نظر
خواب آنکھوں میں کبھی پلتا نہیں

اس کی دنیا میں نہیں قیمت کوئی
جو کسوٹی پر کھرا اترا نہیں

وسعتیں دل کی ہیں دریا کی طرح
کون کہتا ہے کہ دل دریا نہیں

درد و غم وہ کس کے سمجھے اے گہرؔ
اپنے گھر سے جو کبھی نکلا نہیں