EN हिंदी
جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے | شیح شیری
jis suraj ki aas lagi hai shayad wo bhi aae

غزل

جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے

جمیل الدین عالی

;

جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے
تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیئے جلائے

اپنا کام ہے صرف محبت باقی اس کا کام
جب چاہے وہ روٹھے ہم سے جب چاہے من جائے

کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا ان کے بھید
ہم سب کو سمجھانے والے کون ہمیں سمجھائے

ایک اسی امید پہ ہیں سب دشمن دوست قبول
کیا جانے اس سادہ روی میں کون کہاں مل جائے

دنیا والے سب سچے پر جینا ہے اس کو بھی
ایک غریب اکیلا پاپی کس کس سے شرمائے

اتنا بھی مجبور نہ کرنا ورنہ ہم کہہ دیں گے
او عالؔی پر ہنسنے والے تو عالی بن جائے