جس قدر شکوے تھے سب حرف دعا ہونے لگے
ہم کسی کی آرزو میں کیا سے کیا ہونے لگے
بے کسی نے بے زبانی کو زباں کیا بخش دی
جو نہ کہہ سکتے تھے اشکوں سے ادا ہونے لگے
ہم زمانہ کی سخن فہمی کا شکوہ کیا کریں
جب ذرا سی بات پر تم بھی خفا ہونے لگے
رنگ محفل دیکھ کر دنیا نے نظریں پھیر لیں
آشنا جتنے بھی تھے نا آشنا ہونے لگے
ہر قدم پر منزلیں کچھ دور یوں ہوتی گئیں
راز ہائے زندگانی ہم پہ وا ہونے لگے
سر بریدہ خستہ ساماں دل شکستہ جاں بلب
عاشقی میں سرخ رو نام خدا ہونے لگے
آگہی نے جب دکھائی راہ عرفان حبیب
بت تھے جتنے دل میں سب قبلہ نما ہونے لگے
عاشقی کی خیر ہو سرورؔ کہ اب اس شہر میں
وقت وہ آیا ہے بندے بھی خدا ہونے لگے
غزل
جس قدر شکوے تھے سب حرف دعا ہونے لگے
سرور عالم راز