EN हिंदी
جس قدر قلب کی تسکین کے ساماں ہوں گے | شیح شیری
jis qadar qalb ki taskin ke saman honge

غزل

جس قدر قلب کی تسکین کے ساماں ہوں گے

طالب باغپتی

;

جس قدر قلب کی تسکین کے ساماں ہوں گے
کرب افزائے سکون غم ہجراں ہوں گے

عرصۂ حشر میں جو عشق کا عنواں ہوں گے
میری ہی خاک کے اجزائے پریشاں ہوں گے

اشک معصوم جو خمیازۂ عصیاں ہوں گے
وہ بھی منجملۂ سرمایۂ ایماں ہوں گے

میرے ارماں تو نہ منت کش جاناں ہوں گے
دل سے نکلیں گے تو وہ غیر کے ارماں ہوں گے

کہنے سننے سے وہ تکلیف عیادت نہ کریں
عیسیٔ وقت ہیں آ کر بھی پشیماں ہوں گے

دل میں رہ رہ کے کھٹکتے جو ہیں کانٹوں کی طرح
غالباً آپ کے کھوئے ہوئے پیکاں ہوں گے

حاصل عشق و محبت غم ہجراں نہ سہی
وہ کسی شوخ کے بھولے ہوئے پیماں ہوں گے

لاکھ آزاد سہی حضرت طالبؔ لیکن
آپ بھی قائل مجبورئ انساں ہوں گے