EN हिंदी
جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے | شیح شیری
jis qadar bhi hawa hai Khaali hai

غزل

جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے

انعام کبیر

;

جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے
یہ جہاں کھوکھلا ہے خالی ہے

تم مجھے جس مکاں کا پوچھتے ہو
وہ مرے دوست کا ہے خالی ہے

قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے
ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے

اب جلانے کے کام آئے گا
شاخ پر گھونسلہ ہے خالی ہے

یعنی کم بولنے میں حکمت ہے
اور جو چیختا ہے خالی ہے