جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے
یہ جہاں کھوکھلا ہے خالی ہے
تم مجھے جس مکاں کا پوچھتے ہو
وہ مرے دوست کا ہے خالی ہے
قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے
ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے
اب جلانے کے کام آئے گا
شاخ پر گھونسلہ ہے خالی ہے
یعنی کم بولنے میں حکمت ہے
اور جو چیختا ہے خالی ہے

غزل
جس قدر بھی ہوا ہے خالی ہے
انعام کبیر