جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں وہ بھی ہیں بے چین
کچھ یہ بے تابیاں ادھر ہی نہیں
دل کہاں کا جو درد دل ہی نہ ہو
سر کہاں کا جو درد سر ہی نہیں
بے خبر جن کی یاد میں ہیں ہم
خیر سے ان کو کچھ خبر ہی نہیں
بیخودؔ محو و شکوہ ہائے عتاب
اس منش کا تو وہ بشر ہی نہیں
غزل
جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
بیخود بدایونی