EN हिंदी
جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا | شیح شیری
jis ko samjhe the tawangar wo gadagar nikla

غزل

جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا

انیس انصاری

;

جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا
ظرف میں کاسۂ درویش سمندر نکلا

کبھی درویش کے تکیہ میں بھی آ کر دیکھو
تنگ دستی میں بھی آرام میسر نکلا

مشکلیں آتی ہیں آنے دو گزر جائیں گی
لوگ یہ دیکھیں کہ کمزور دلاور نکلا

جب گرفتوں سے بھی آگے ہو پہنچ مٹھی کی
تب لگے گا کہ سمندر میں شناور نکلا

کوئی موہوم سا چہرہ جو بلاتا ہے ہمیں
بادلوں کی طرح شکلیں وہ بدل کر نکلا

دل عجب چیز ہے کس مٹی میں جا کر بوئیں
جڑ یوں پکڑے کہ لگے پیڑ تناور نکلا

لاش قاتل نے کھلی پھینک دی چوراہے پر
دیکھنے والا کوئی گھر سے نہ باہر نکلا

دیکھنے میں تو دھنک چند ہی لمحے تھی انیسؔ
سات رنگوں کا مگر دیدنی منظر نکلا