EN हिंदी
جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے | شیح شیری
jis ko sab kahte hain samundar hai

غزل

جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے

مردان علی خاں رانا

;

جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے

ابروئے یار دل کا خنجر ہے
مژۂ یار نوک نشتر ہے

چشم عاشق سے دو بہے دریا
ایک تسنیم ایک کوثر ہے

خانۂ دل ہے غیر سے خالی
شوق سے آؤ آپکا گھر ہے

قطعی آج فیصلہ ہوگا
تیری تلوار ہے مرا سر ہے

اب تو دھونی رما کے بیٹھے ہیں
در جاناں پے اپنا بستر ہے

طمع ہر اک کا دین و ایماں ہے
جس کو دیکھو وہ بندۂ زر ہے

خوب دل کھول کر جفا کر لو
بندہ مدت سے اس کا خوگر ہے

بام پر جلوہ گر ہے وہ شاید
کوئے جاناں میں شور محشر ہے

کرتا عالم کو آہ سے برہم
لیک رعناؔ کو یار کا ڈر ہے