جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے
ابروئے یار دل کا خنجر ہے
مژۂ یار نوک نشتر ہے
چشم عاشق سے دو بہے دریا
ایک تسنیم ایک کوثر ہے
خانۂ دل ہے غیر سے خالی
شوق سے آؤ آپکا گھر ہے
قطعی آج فیصلہ ہوگا
تیری تلوار ہے مرا سر ہے
اب تو دھونی رما کے بیٹھے ہیں
در جاناں پے اپنا بستر ہے
طمع ہر اک کا دین و ایماں ہے
جس کو دیکھو وہ بندۂ زر ہے
خوب دل کھول کر جفا کر لو
بندہ مدت سے اس کا خوگر ہے
بام پر جلوہ گر ہے وہ شاید
کوئے جاناں میں شور محشر ہے
کرتا عالم کو آہ سے برہم
لیک رعناؔ کو یار کا ڈر ہے
غزل
جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
مردان علی خاں رانا