EN हिंदी
جس کو لگتا ہے گمشدہ ہوں میں | شیح شیری
jis ko lagta hai gum-shuda hun main

غزل

جس کو لگتا ہے گمشدہ ہوں میں

سیما شرما سرحد

;

جس کو لگتا ہے گمشدہ ہوں میں
جان لے مجھ کو زلزلہ ہوں میں

میں بچاتی ہوں بد دعاؤں سے
ماں کی بھیجی ہوئی دعا ہوں میں

کھو گیا جو گھنے اندھیروں میں
اس اجالے کا راستہ ہوں میں

مجھ کو پہچان میرے ناز اٹھا
تیرا اپنوں سے رابطہ ہوں میں

نفرتوں نے دیے ہیں جو تم کو
ایسے ہر درد کی دوا ہوں میں

وقت سے ہار کر نہ بیٹھ مجھے
پھر بلا لے تری ادا ہوں میں

میں سکوں ہوں خوشی بھی ہوں سرحدؔ
کون کہتا ہے غم زدہ ہوں میں