جس کو خبر نہیں اسے جوش و خروش ہے
جو پا گیا وہ راز وہ گم ہے خموش ہے
ہے ایک شور بلبل و صوت شگفتہ گل
یہ صور عافیت ہے وہ یاسین ہوش ہے
آئی تھی شکل دل کے جو آئنہ میں نظر
بند آنکھ اس سے اور زباں بھی خموش ہے
یہ حال ہو کہ آپ میں عالم کو دیکھ لے
گر دل میں تیرے عشق کی کثرت کا جوش ہے
کب ہے کمال عشق پہ حاوی غم فراق
ایک ایک ذرہ قیس کو محمل بہ دوش ہے
وارفتۂ ہوائے طرب یاد رکھ اسے
جو درد کی کھٹک ہے نوید سروش ہے
برق جمال نافئے ما و شما ہوئی
کیا ذکر شمع طور کہ وہ بھی خموش ہے
کیا ہے ترا حدوث و قدم ہم تو ہیں وہاں
ہستی جہاں عدم کے لئے خواب نوش ہے
عشاق جامہ پہنے ہیں تسلیم عشق کا
دستار و جبہ شیخ کا ہاں پردہ پوش ہے
تیرے جہاں سے محفل رنداں جدا ہے شیخ
ہر ایک مغبچہ یہاں کثر فروش ہے
ساقی کی ایک نظر ہی ہمیں مست کر گئی
کس کو صراحی و خم و ساغر کا ہوش ہے
امرت کے جھالے مر کیا لا تقنطو کی ہیں
اس بزم میں یہ مشغلۂ ناؤنوش ہے
کیفیؔ یہ اہل دہر سے کہہ دو پکار کر
اس بزم میں وہ آئے کہ جو سرفروش ہے
غزل
جس کو خبر نہیں اسے جوش و خروش ہے
دتا تریہ کیفی